ضلع وسطی میں 5 سال بعد بھی متاثرین ملبے پر زندگی بسر کررہے ہیں، کراچی بچاؤ تحریک

کراچی بچاؤ تحریک نے نگراں وزیراعلیٰ سے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کے متاثرین کی فوری آبادکاری کی جائے اور انہیں متبادل رہائش فراہم کرنے تک کرایہ ادا کرنے کے چیکس دیے جائیں۔

کراچی پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کراچی بچاؤ تحریک کے کنونیئر خرم علی نے کہا کہ ’شہر میں بلڈر مافیا اور رئیل اسٹیٹ مافیا کے قبضے کا سلسلہ جاری ہے اور عوامی نمائندے بھی ایوان پہنچنے کے بعد ان بلڈرز کے ساتھ تعلقات بنا کر اپنے کام نکلواتے ہیں۔

خرم علی نے کہا کہ کراچی کی اکثریت کچی بستیوں میں رہتی ہے وہاں حکومت صرف بلڈوزرز بھیج کر ان کے گھر اجاڑنے کا کام سرانجام دیتی ہےاور اگر یہ چاہیں کہ حکومتی نمائندوں سے ملاقات ہو جائے تو ان کو ریلی کی صورت میں سی ایم ہاؤس یا بلاول ہاؤس پہنچنا پڑتا ہے جہاں پولیس لاٹھیاں اور آنسو گیس لئے ان کی گرفتاری کی راہ تک رہی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتوں کا بھی حال پچھلے کچھ ادوار میں کیا رہا یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور جسٹس گلزار کے دور میں جو کچھ جسٹس فائز عیسیٰ اور بالعموم عدالتی نظام کے ساتھ ہوتا رہا اس سے زیادہ برا حال کراچی کی مزدور بستیوں کا ہوا، اب اس سے زیادہ غریبوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے کے بارے میں ہم کیا بیان کریں کہ کے سی آر کے حوالے سے ہونے والی مسماریوں میں دو بستیوں کے نام ہی غریب آباد تھے۔

خرم علی نے کہا کہ ’پی آئی ڈی سی کے پاس واقع غریب آباد کو تو کراچی بچاؤ تحریک بچانے میں کامیاب ہوئی لیکن ضلع وسطی میں واقع غریب آباد بلڈوزروں نے اجاڑ دیا اور پانچ سال سے زائد ہو چکے ہیں مگر وہاں کے رہائشی ملبے پر زندگی گزارتے ہوئے عدالت کے اس حکم کے عمل درآمد کا انتظار کر رہے ہیں جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ان کو متبادل جگہ پر آباد کیا جائے‘۔

کراچی بچاؤ تحریک کے کنونیئر نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں جب سے جسٹس مقبول باقر صاحب تشریف لائے، جنہوں نے بلدیہ فیکٹری کے مزدوروں کے ساتھ انصاف کیا تھا تو ہمیں کچھ امید بندھی ہے کہ پچھلے ادوار کی طرح ہمیں ان تک لیمو گوٹھ، مجاہد و واحد کالونی اور کے سی آر کے متاثرین کی آواز پہنچانے کے لئے سڑکوں پر نہیں آنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس ہے لئے ہم نے احتجاج کی جگہ پریس کانفرنس کے ذریعے ان سے گزارش کا راستہ اختیار کیا کہ وہ ان متاثرین کے لئے وقت نکالیں اور ان کے مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس ہی طرح جسٹس گلزار کے فیصلوں کے متعلق ہمیں بہت زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور جسٹس فائز عیسیٰ صاحب اور پوری وکلا برادری خود بہتر جانتی ہے کہ کیا کچھ ہوتا رہا۔

اُن کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ سے بھی گزارش ہے کہ جنگی بنیادوں پر کراچی کی بستیوں کی مسماری کے فیصلوں پر نظر ثانی کی جائے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کو انصاف فراہم کیا جائے۔ ہمیں ان دونوں اشخاص سے بہت امیدیں ہیں۔

شرکا نے بتایا کہ حاجی لیمو گوٹھ جو کہ پاکستان بننے سےپہلے بھی آباد تھا اور وہاں عرصہ دراز سے گبول برادری مقیم ہے۔ پاکستان بننے کے بعد یہ علاقہ قانونی قرار دیا گیا اور جن اشخاص کے پاس لیز کرانے کے پیسے تھے انہوں نے اپنے گھر لیز بھی کرا لئے لیکن کچھ خاندان ایسے ہیں جو آج تک اتنا روپیہ جمع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ اپنے گھر لیز کرا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ اس گوٹھ کے درمیان سے ایک چھوٹا نالہ بہتا تھا جس کو بنیاد بنا کر ان کے لیز گھروں تک کو توڑ دیا گیا۔ یہ معاملہ کم و بیش گجر و اورنگی نالے سے ہی ملتا جلتا ہے اور کم و بیش اس ہی زمانے میں ان کے گھر مسمار ہوئے جس زمانے میں گجر و اورنگی کے گھروں کو مسمار کیا گیا۔

خرم علی نے مطالبہ کیا کہ سندھ حکومت اور عدالتوں سے یہ گزارش ہے کہ جس طرح گجر و اورنگی کو کرائے کی مد میں چیکس جاری کئے گئے ہیں اور متبادل فراہم کرنے کا فیصلہ کر کے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنیا جا رہا ہے اس ہی طرح لیمو گوٹھ کے متاثرین کو بھی یہی ریلیف فراہم کیا جائے کیونکہ ان کے اور گجر و اورنگی کے کیس میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ مجاہد و واحد کالونی کا معاملہ  سمجھ سے باہر ہے کیونکہ وہاں سے نہ تو کوئی نالا گزر رہا ہے اور نہ ہی وہاں کسی اضافی سڑک کی ضرورت ہے اور نہ ہی وہاں کوئی ٹریفک جام وغیرہ دیکھنے کو ملا مگر آبادی کو مسمار کیا جارہا ہے، سننے میں یہ آیا ہے کہ وہاں توڑ پھوڑ میں ملوث افسران کو کرپشن کے حوالے سے واچ لسٹ میں ڈالا گیا ہے اس لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مجاہد و واحد کی مسماریوں کے پیچھے بھی کنسٹرکشن اور بلڈر مافیا کے عزائم موجود ہوں گے۔

خرم علی نے کہا کہ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ضلع وسطی کی زمین سونا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان زمینوں پر رہائش پزیز محنت کش اور درمیانے طبقے کی آبادی زمین کا کھیل کرنے والوں کو پسند نہیں آرہی اور شاہد یہی وجہ ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ مسماریاں ضلع وسطی میں ہو رہی ہیں۔

کراچی بچاؤ تحریک کے عہدیداران نے صحافی برادری سے امید ظاہر کی کہ وہ پُرامن جدوجہد کی کوریج کر کے حکام بالا تک بالکل ویسے ہی آواز پہچائیں گے جیسے گجر اور اورنگی نالے کی جدوجہد مین کردار ادا کیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں: