چترال پر حملہ، فورسز کا آپریشن اور افغان حکومت کا کردار… تحریر عقیل یوسفزئی

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے خیبر پختون خوا کے سیاحتی مرکز اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے ضلع چترال کے متعدد سرحدی علاقوں میں قائم چیک پوائنٹس پر 6 ستمبر کی صبح حملے کئے جبکہ بعض حملہ آوروں نے دو تین دیگر راستوں سے دراندازی کی جس کے نتیجے میں ابتدائی ناگہانی حملے کے دوران 4 سیکورٹی اہلکار شہید ہوگئے جبکہ جوابی کارروائی میں 12 سے 14 حملہ آوروں کو نشانہ بنایا گیا۔

اس مہم جوئی پر پاکستان نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حملہ آوروں کی بیخ کنی کے لئے فورسز کو گھنٹوں کے اندر چترال پہنچایا تاکہ اس حسین وادی کو محفوظ بنایا جاسکے. فورسز نے مختلف علاقوں میں کارروائیاں شروع کیں جس کے نتیجے میں 9 ستمبر کو مزید نصف درجن حملہ آوروں کو مارا گیا جبکہ ایک درجن زخمی کئے گئے. تادم تحریر متاثرہ علاقے میں سرچ اینڈ اسٹرایک آپریشن جاری ہے. مقامی انتظامیہ اور عوامی حلقوں کے مطابق ضلع میں معمولات زندگی بحال ہیں اور عوام خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔

دوسری جانب اس قسم کی اطلاعات بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ اس مہم جوئی کو درپردہ افغان حکومت یا اس میں موجود بعض اہم لوگوں کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ سرکاری طور پر افغان حکومت اب بھی اس اعتراف سے انکاری ہے کہ ان کی سرزمین کھلے عام پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ حالانکہ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ چترال پر ملحقہ افغان علاقے صوبہ نورستان سے حملہ کیا گیا اور یہ بھی کہ نورستان اور کنڑ میں ٹی ٹی پی کے علاوہ دو دیگر گروپوں نے نہ صرف اپنے ٹھکانے بنائے ہیں بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان دو صوبوں میں 3 سے زائد ٹریننگ کیمپس بھی قائم کئے گئے ہیں. ایسے میں اس بات پر کیونکر یقین کیا جائے کہ افغان حکومت کو ان سرگرمیوں کی خبر نہیں ہوگی؟

جس روز چترال پر حملہ کیا گیا اس روز پاک افغان بارڈر طورخم میں بھی افغان فورسز اور پاکستانی فورسز کے درمیان ایک جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں نہ صرف متعدد افراد نشانہ بنے بلکہ ردعمل کے طور پر سرحد (کراسنگ پوائنٹ) بھی بند کردی گئی۔

اس اقدام پر افغان حکومت نے سخت ردعمل اور تشویش کا اظہار بھی کیا تاہم پاکستان نے بھی سخت رویہ اختیار کیا اور اس کے باعث نہ صرف تجارت متاثر ہوئی بلکہ عام آمدورفت بھی کلی طور پر بند ہوئی۔

تجربہ کار اس صورتحال کو تشویش کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اکثر کا موقف ہے کہ کراس بارڈر ٹیررازم اور افغان حکومت کے یکطرفہ منفی کردار پر سخت ردعمل دکھایا جائے تاکہ اگست 2021 کے بعد ٹی ٹی پی کے حملوں میں جو شدت واقع ہوگئی ہے اس کا تدارک کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں: